سونے کے اس پہاڑ کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لڑیں گے اور سو میں سے ننانوے قتل ہو جائیں گے،

سونے کے پہاڑ

کائنات نیوز! سینئر تجزیہ و کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ کوہ ارارات کی برف پوش چوٹیوں سے یہ دریا نکلتا ہے۔ یہ وہی ارارات پہاڑ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سیدنا نوحؑ کی کشتی طوفان نوح کے اختتام کے بعد آکر ٹھہری تھی۔ یہ پہاڑ اس سلسلہ ہائے کوہ میں واقع ہے جسے آرمینائی پہاڑی سلسلہ کہتے ہیں۔اس سلسلے کی سب سے بلند چوٹی ارارات 16854 فٹ بلند ہے۔

یہاں سے نکلنے والے دریا کا نام فرات ہے۔ اس دریا کے کناروں پر ایک بہت بڑی تہذیب آباد تھی جسے بابل کی تہذیب کہتے ہیں۔ اس کے ایک طاقتور بادشاہ بخت نصر نے یروشلم شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو کوئی ہنر مند تھا اسے غلام بناکر اسی فرات کے کنارے لا کر آباد کر دیا۔ یہودی اپنی عبرانی زبان میں اسے ”پرات” اور عربی ”الفرات” کہتے ہیں۔ یہ دریا ترکی سے گزرتا ہوا عرفہ کے شہر کے پاس شام کے علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ عرفہ وہی شہر ہے جہاں سیدنا ابراہیم ؑ کو نمرود نے آگ میں پھینکا تھا اور آگ اللہ کے حکم سے سرد ہو گئی تھی۔ آج بھی بلند پہاڑی پر وہ دوستون ایستادہ ہیں جن سے باندھ کر حضرت ابراہیم ؑ کو منجنیق نما بڑی غلیل سے نیچے جلائی گئی بلندیوں کو چھوتی ہوئی آگ میں اچھالا گیا تھا۔ آج اس آگ والی جگہ ایک خوبصورت تالاب ہے، جس میں رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی ہوتی ہیں۔ جرابلس کے شہر کے پاس سے گزرتا ہوا یہ دریا اس بڑے صحرا نما میدان میں داخل ہو جاتا ہے جہاں اعماق اور دابق کے مقامات ہیں۔ یہ وہی مقامات اور صحرا ہے جہاں رسول اکرم ﷺ نے اس بڑی جنگ کی پیش گوئی کی ہے جس میں اہل روم یعنی یورپ اسّی(80) جھنڈوں تلے اکٹھا ہو کرلڑنے آئیں گے اور ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار سپاہی ہوں گے۔ یعنی نو لاکھ اسی ہزار انفنٹری۔ اتنی بڑی تعداد بیک وقت ایک محاذ پر کسی جنگ میں آج تک استعمال نہیں ہوئی۔

عراق میں یہ دریائے الانبار کے علاقے سے داخل ہوتا ہے۔ اس علاقے کے بارے میں شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ یہاں وہ غار ”سرمن رائے” واقع ہے، جہاں امام حسن عسکری کے بیٹے روپوش ہو گئے یعنی ”غیبت ” میں چلے گئے تھے، یعنی چھپ گئے تھے۔ انہیں عمر ِخضر عطا کی گئی ہے اور وہ آخری زمانہ میں ظہور کریں گے۔ اسی دریا کے کنارے کربلا کا میدان ہے، جہاں نواسہ رسول سیدنا امام حسین ؓ کی المناک شہادت ہوئی تھی۔ قرب و جوار میں حضرت علی ؓ کا نجف ہے۔ یہ دریا اپنے ہمرکاب ذرا فاصلے پر بہنے والے دریائے دجلہ کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا آپس میں مل کر شط العرب کے مقام پر خلیج فارس میں ڈوب جاتا ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ سے لے کر آج تک یہ دریا لاتعداد اہم واقعات کا شاہد ہے۔ انہی دونوں دریاؤں کے درمیان دنیا کی قدیم ترین تہذیب میسو پوٹیمیا (Mesopotamia) آباد تھی جو تین ہزار سال قبل مسیح سے بھی پرانی ہے۔ اسی دریا کے کنارے کنارے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنا سفر شروع کیا، مکہ کی وادی میں خانہ کعبہ کو اس کی بنیادوں پر استوار کیا، سیدہ ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے حوالے یہ مقدس سرزمین کی اور خود یروشلم میں چلے گئے، جہاں آج بھی الخلیل میں ان کا مزار ہے۔اس پورے سفر کے ہر شہر اور علاقے کو یہودی مقدس مانتے ہیں اور اسے واپس حاصل کر کے آخری زمانے میں قائم ہونے والی عالمی یہودی سلطنت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

اسی فرات اور دجلہ کے درمیان واقعہ ڈیلٹا میں قادسیہ کی جنگ ہوئی تھی جہاں اپنے زمانے کی عالمی قوت ایران، سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے میں عرب کے بادیہ نشین مفلوک الحال مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا شکار ہوئی تھی۔ یہ دریا جو شاید ابتدائے آفرینش سے بہتا چلا آرہا ہے، گذشتہ ایک صدی سے ایک مسلسل کشمکش اور قوت و طاقت کی مڈبھیڑ دیکھ رہا ہے۔ یہ کشمکش اس وقت سے شروع ہوئی جب اس کے کناروں پر موجود میدانوں اور صحراؤں میں تیل دریافت ہوا۔ شام میں دیرالزور کے تیل کے چشمے دریائے فرات کے دونوں کناروں پر واقع ہیں۔ یہاں سے روزانہ تین لاکھ پچاسی ہزار بیرل تیل نکالا جاتا ہے جبکہ عراق کے تیل کے کنویں دجلہ و فرات،دونوں دریاؤں کے آس پاس پھیلے ہوئے ہیں اور اس کے پاس 140 ارب بیرل کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ تیل گذشتہ ایک سو برس سے اب صرف تیل نہیں رہ گیا بلکہ کاغذی کرنسی کی مالیت متعین کرنے کے لیے سونے کا سب سے بڑا متبادل ہے۔ گویا یہ آج کے دور میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں سونے کی حیثیت تھی۔ اسی سونے کی تشبیہ دیتے ہوئے رسول اکرم ﷺ نے فرات کے کناروں کا ذکر کیا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا، ” عنقریب دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ نمودار ہوگا۔ جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گےتو اس کی طرف چل پڑیں گے اور جو پہاڑ کے پاس ہوں گے

وہ کہیں گے، کہ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو دوسرے لوگ اسے لے آئیں گے”۔ آپ ؐ نے فرمایا، ” پھر اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے لوگ لڑیں گے اور سو میں سے ننانوے قتل ہو جائیں (صحیح مسلم، کتاب الفتن، نعیم بن حماد)۔ یہ ہے اس جنگ کا آغاز اور اختتام کے بارے میں بھی حدیث صحیح مسلم اور نعیم بن حماد کی کتاب الفتن میں ہی ملتی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ” وہ وقت قریب ہے جب عراق والوں کے پاس نفیر (غلہ) اور درہم (پیسے) نہ آئے۔ ہم نے عرض کیا کس سبب سے، تو آپ ؐ نے فرمایا عجم (غیر عرب، ایرانی) روک لیں گے۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ وہ وقت بھی قریب ہے جب اہل شام پر بھی یہ پابندی لگا دی جائے۔ پوچھا گیا یہ پابندی کس طرف سے ہوگی، آپؐ نے فرمایا اہل روم (مغرب) والوں سے۔ پھر تھوڑی دیر خاموشی کے بعد ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو مال لپ لپ بھر کردے گا اور شمار نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے قسم کھائی اور فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام یقینا اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹے گا جس طرح کہ اس کی ابتداء مدینے سے ہوئی تھی (صحیح مسلم)۔ یعنی فرات پر سونے کے پہاڑ کے لئے ہونے والی جنگ ایک سو میں سے ننانوے افراد کی جان لے لے گیاور اس کے بعد امام مہدی یا خلیفہ مہدی مسلمانوں کی قیادت کریں گے۔

اس جنگ کا آغاز اس وقت سے ہو گیا تھا جب 1912ء میں تیل دریافت ہوا،تو خلافت عثمانیہ نے ترکش آئل کمپنی بنائی۔ اس کے ٹھیک چار سال بعد 6 نومبر 1916ء کو برطانیہ نے عراق سے جنگ کا آغاز کیا اور 1917میں بغداد پر قبضہ کرلیا۔ حجاز میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے شریف مکہ، حسین بن علی کے بیٹے فیصل کو فرات و دجلہ کی سرزمین کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1932ء میں عراق کو آزاد کیا گیا تو تین سال بعد 1935ء میں فرات کے کنارے ایک بہت بڑی شیعہ سنی لڑائی شروع ہو گئی جو ایک سال چلتی رہی اور ہزاروں انسانوں کی جانیں لے گئی۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ایک عرب قوم پرست رشید عالی اکیلانی نے جرمنی کی مدد سے بغاوت کردی اور عراق پر قبضہ کرلیا۔اسی وجہ سے برطانیہ نے عراق پر حملہ کیا۔ اس خونریز معرکے میں برطانیہ نے فتح حاصل کی لیکن پھر تقریبا سات سال یعنی 26 اکتوبر 1947ء تک برطانوی فوجیں عراق میں رہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ خطہ مسلسل حالت جنگ میں رہا ہے۔ بیرون حملہ آور نہ بھی تھے تو آپس میں کبھی شیعہ سنی معرکے اور کبھی قوم پرست عرب یا دیگر کرد قوم پرست حکومت سے الجھتے رہے اور فرات کے کنارے انسانوں کا خون بہتا رہا۔ اسرائیل کے ساتھ بھی دو جنگیں ہوئیں، 1948ء میں اور دوسری 1967ئ۔

دونوں جنگوں میں دریائے فرات پر آباد لوگوں نے ذلت آمیز شکست کھائی۔ 1980ء سے 1988 ء تک چلنے والی ایران عراق جنگ دس لاکھ انسانوں کا نذرانہ لے گئی۔

مزید پڑھیں! ایک عورت کا دوسری عورت کے جسم کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں جانیئے

اپنی رائے کا اظہار کریں