کائنات نیوز! موت کی حقیقت تو اسلام میں بہت واضح ہے کہ یہ اللہ کا ایک امر ہے جس کی وجہ سے انسان کی دنیاوی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی اخروی زندگی شروع ہوجاتی ہے . لیکن مغرب اور خصوصا وہ لوگ جو کہ کسی مذہب کو نہیںمانتے ان کے لئے اس وقت موت ایک ایسا سوال ہے جس کو یہ کبھی بھی حل نہیںکر پائے .
اس دنیا میںبہت سے ایسے لوگ ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار موت کا مزہ چک چکے ہیںاور پھر اس دنیا میں واپس آئے ہیں. لیکن حقیقت یہی ہے کہ سائنس سب کچھ نہیں جانتی اور ایک مقام پر جا کر اس کو بھی سمجھ نہیںآتی کہ ایسا کیوںہو رہاہے . بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ میڈیکل کے ٹرم میں ایک بندہ مکمل مر چکا ہے لیکن کچھ دیر بعد پھر زندہ ہوتا ہے اور اس کے دماغ دل اور باقی اعضاء کام کر رہے ہوتے ہیں . ایسے بہت لوگ ہے آج ہم آپکو ایک داکٹر کے بارے میں بتاتے ہیںجو کہ اس حالت سے دو دفعہ گزرا ہے نہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ دونوں مواقع پر ان کا تجربہ بہت مختلف رہا لیکن دونوں مرتبہ ان میں ایک فلسفیانہ تبدیلی در آئی۔اپنے پہلے تجربے کی ‘خوفناکی’ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ا س دوران ان کا جسم ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کر رہا تھا۔لیکن 20 سال بعد جب انہیں موت کے احساسات سے دوبارہ واسطہ پڑا تو اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی ‘شاندار’ تجربہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 1974 میں جب میں تقریباً 19 سال کا تھا تو میں لندن میں تعلیم کے حصول کے دوران ٹرائی فین کے قریب رہتا تھا۔ مجھے زکام ہوا تھا اور مجھے میں آرام کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے دوستوں کے ساتھ باہر چڑھائی پر چلا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مجھے عجیب محسوس ہوا لیکن میں آگے بڑھتے رہنے پر مجبور تھا۔ جب میں واپس اپنی رہائش گاہ پر آیا
تو گر پڑا اور اس لمحے مجھے بہت ہی عجیب تجربہ ہوا۔چند لمحوں بعد مجھے انتہائی خوفناک احساس ہوا وہ یہ کہ میں اپنے جسم سے باہر نکل رہا تھا۔ جب آپ سونے جاتے ہیں تو آپ بہت پرسکون محسوس کرتے ہیں لیکن اس تجربے کے دوران میں بہت ہوشیار تھا۔ یہ میرے تصور سے بھی زیادہ ہولناک تھا کہ یہ سب میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ ایسا تھا کہ میرے جسم کے اعضاء میرے قابو میں نہیں تھے۔جب میں نے خود کو واپس اپنے جسم میں محسوس کیا تو نہایت ہی ناقابل بیان سکون میسر آیا۔ میں بس جاگ جانا چاہتا تھا۔انہوں نے اس حالت کو مکمل طور پر بیان کرنے کے لیے ‘لامحدود تاریکی’ کا لفظ استعمال کیا۔ اور کہا کہ انہیں ایسے لگا جیسے دو بڑے سے جبڑے ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ میں ان چیزوں کو دیکھنے کے قابل کیوں نہیں تھا، بہرحال یہ بہت ناخوشگوار تجربہ تھا۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ انسانی دماغ بہت محدود ہے۔ یہ ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتا جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ سوچ سکتا ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں