حجراَسودکوخانہ کعبہ سےجب جداکرکےلےجایاگیا تھا توجس اونٹ پروہ لاداجاتاتھا وہ کیوں مرجاتاتھا؟

حجراَسود

کائنات نیوز! حجراَسودکوخانہ کعبہ سےجب جداکرکےلےجایاگیاتھا توجس اونٹ پروہ لاداجاتاتھا وہ کیوں مرجاتاتھا؟ پڑھئیےایمان افروزاورتاریخی واقعات. ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا، ایسا عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا۔ اسیابو طاہر قرامطی نے حجر اسودکو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دےدئیے۔ تب حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339ھ کو ہوئی، گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا، تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ کو حجر اسود کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے، تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا،

جس میں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا گیا تو ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار، خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے، اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ حجر اسود ہوگا اور ہم لے جائیں گے۔ پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آ-گ سے گرم بھی نہیں ہوتا۔ اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آ-گ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا۔ فرمایا ہم اصل حجر اسود کو لیں گے پھر اصل حجر اسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا۔ تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا حجر اسود ہے، اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے

اور یہی جنت والا پتھر ہے۔ اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہایہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں، ہمیں جناب رسول اللہؐ سے ملی ہیں کہ ’’حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آ-گ سے گرم نہیں ہو گا۔‘‘ ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا۔ جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا۔ اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی۔ اس لیے کہ حجر اسود اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا۔ لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا تھا وہ مر جاتا تھا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں