سائنس کے مُطابق موسی علیہ السلام نے دریائے نیل کو کیسے دو ٹکڑے کیا

موسی علیہ السلام نے دریائے نیل

کائنات نیوز! نظر کا معجزہ آنکھ کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے لیکن عقل کا معجزہ انسان کو دھوکا نہیں دیتا اور کائنات کی تخلیق عقل اور علم والوں کے لیے معجزہ ہے اور فقط نظر والے اسکے گہرے رازوں کو کبھی سمجھ نہیں پاتے چنانچہ بعض معجزات ایسے ہیں جو خاص فقط نظر والوں کے لیے ظہور میں آئے ۔ مُوسٰی علیہ السلام نے فرعون اور اُسکے لشکر سے بچنے کے لیے دریائے نیل

کے پانی میں عصا پھینک کر جب راستہ پیدا کیا تو علم اور عقل والے تو ورطہ حیرت میں ڈوب ہی گئے لیکن یہ معجزہ خاص نظر والوں کے لیے تھا تاکہ وہ سمجھتے کہ جب اللہ ساتھ ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔ مُوسٰی علیہ السلام نے دریائے نیل کے پانی کو دو ٹکڑے کر کے راستہ پیدا کیا تھا یہ بات مُسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں کی روایات میں موجود ہے اور تینوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن غور کرنے والے آج بھی غور کر رہے ہیں کہ آخر یہ راستہ پیدا کیسے ہُوا تھا اور اُن کی دلچسپ تحقیقات حیران کُن نتائج اخذ کرتی ہیں۔ ہالی وُڈ کے ایک سوفٹ وئیر انجینیر کارل ڈریو جنہوں نے مُوسٰی علیہ السلام پر بننے والی ہالی وُڈ فلم گاڈز اینڈ کنگز میں مُوسٰی علیہ السلام کے دریائے نیل کو دو ٹکڑے کرنے کا سائنسی تصور پیش کیا کہتے ہیں ” میرا شُمار اُن کرسچینز میں ہوتا ہے جو تخلیق کی سائنسی تھیوریز پر یقین رکھتے ہیں اور بائبل میں درج دریائے نیل میں راستہ بننے کی کہانی عین ممکن ہے کے موسمی صُورتحال میں

تبدیلی سے پیدا ہُوئی ہو”۔ کارل ڈریو کا آئیڈیا فلم دیکھنے والوں کے لیے تھا اور عقل کے ساتھ اسے تسلیم کرنا تھوڑا مُشکل تھا لیکن پھر امریکہ کی کولاراڈو یونیورسٹی نے کارل کی اس موسمیاتی ریسرچ کو اپنے ماسٹر ڈگری پروگرام کے تھیسیز میں شامل کیا اور بعد میں امریکہ کے موسمیات پر ریسرچ کرنے والے ادارے نے اس تھیوری پر اپنی ریسرچ کو وسیع کیا اور دلچسپ نتائج اخذ کیے۔ طوفانوں پر ریسرچ کرنے والے ایک سائنس دان گریگ ہالینڈ نے کہا کہ ہم کبھی جان نہ پاتے کہ دریائے نیل کا پانی کیسے دو ٹکڑے ہُوا لیکن کارل کی ریسرچ نے ہمیں تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ یہ واقع کہاں اور کیسے رونما ہُوا تھا۔ کارل کی تھیوریز کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام نے ریڈ سی میں سعودی عرب اور مصر اور یونان کے درمیان راستہ بنایا اور کارل کی اس تھیوری کو بہت سے محقیقن کا کہنا ہے کہ درست ہے۔ کارل کے مُطابق پانی کو پرے ہٹانے کے لیے مشرق سے ایک تیز ہوا چلی جس نے پانی کو دو ٹکڑے کر دیا،

موسمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے بہت زیادہ طاقتور ہوا کی ضرورت ہے اورایسا ممکن ہے اور یہ چیز ایک کوسٹل ایفیکٹ جسے وینڈ سیٹ ڈاؤن کہتے ہیں جو ساحل کے پانی پر دباؤ ڈالتی ہے یہ ہوا 60 میل فی گھنٹہ سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور دباؤ سے پانی پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ونڈ سیٹ ڈاؤن کا یہ عمل کئی جگہوں پر نوٹ کیا گیا ہے خاص طور پر جھیل ایری میں اور 1882 میں بھی دریائے نیل کے ڈیلٹا میں ونڈ سیٹ ڈاؤں سے پانی دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔

اپنی رائے کا اظہار کریں