اللہ تعالیٰ نےقرآن پاک میں کئی مقامات پر اپنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے

اپنی نعمتوں کا ذکر

کائنات نیوز! اللہ تعالیٰ ہمیں اکثر ایسی نعمتوں سے بھی سرفراز فرما دیتا ہے، جو ہم مانگتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی عطا کرتاہے۔ جوہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں اور ہم نے مانگی بھی نہیں ہوتیں۔ ارشاد باری تعالیٰاللہ تعالیٰ ہمیں اکثر ایسی نعمتوں سے بھی سرفراز فرما دیتا ہے، جو ہم مانگتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی عطا کرتاہے۔ جوہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں اور ہم نے مانگی بھی نہیں ہوتیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ نجات حاصل کرو۔‘‘ (الاعراف : 69) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھی اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے اور انکی قوموں کے لئے بھی یہ حکم تھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ اذْكُرْ‌ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُ‌وحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَ‌اةَ وَالْإِنجِيلَ ۖوَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ‌ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرً‌ا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِ‌ئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَ‌صَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِ‌جُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ‌ مُّبِينٌ’’ تصور کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ “اے مریم کے بیٹے عیسیٰؑ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی، میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی،

میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا، پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا ‘‘ (المائدۃ :110) ہمارے نبی کریمﷺ سےاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى (6) وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (7) وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى (الضحى: 6-8 )’’بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بے شک دی) اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔‘‘ حضرت ہودعلیہ السلام نے ان لفظوں میں اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیوں کا ذکرکرنے کا کہا:

’’اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد سردار بنایا اور تمہیں پھیلاؤ زیادہ دیا۔‘‘(الاعراف : 69) حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سےفرمایاکہ : وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا (الأعراف: 74)’’ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے ‘‘ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا : وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ (الأعراف: 86)’’ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا۔‘‘ اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم س کہا: اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ (إبراهيم: 6)’’ “اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نےتم پر کیا ہے اس نے تم کو ف-ر-ع-و-ن والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے،

تمہارے لڑکوں کو ق-ت-ل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے ‘‘ اللہ تعالیٰ سورہ الانفال میں اپنے نیک بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ (الأنفال: 26)’’ اد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچای ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ’’اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں نے تم کو عنایت کیا۔‘‘(ابراہیم : 34) وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا’’اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو ۔‘‘ (ابراہیم : 34) اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا ذکر دراصل اس کے شکر کرنے، توحید کے اقرار اور عبادت کا جذبہ پیدا کرتا ہے

اور یہی آخرت کی کامیابی کا حقیقی سبب ہے۔ ایک دفعہ صحابہ کرام اللہ کی نعمتوں کا ذکر کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ نے ان کے بیٹھنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا اللہ نے ہمیں اسلام کی جو ہدایت بخشی اور ہم پر جو دوسرے احسانات کیے ہیں ہم ان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔سچائی یہی ہے کہ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی طرف سےانسان کے لیے گفٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية: 13)’’اور جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا۔‘‘ اللہ نے جو ہمیں نعمتیں عطا کی ہیں انکا ہمیں ہمیشہ شکر ادا کرنا چاہیئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اللہ کا احسان بھول جائیں اور یہی نعمت ہلاکت کا باعث بن جائے۔ انسانوں سے ہر عطا کردہ نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گاکہ آیا اس نے اس کی قدر کی یا نہ کی۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: إن أولَ ما يُسألُ عنه العبدُ يوم القيامةِ – أي: من النِّعَم -: أن يُقال له: ألم نُصِحَّ لك جسمَك ونرويكَ من الماء البارِد؟؛ رواه الترمذي.’’قیامت کے دن بندے کو سب سے پہلے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا ہم نے تمھیں صحیح سالم جسم نہ دیا تھا اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا تھا۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا کرے اور ہر حال میں شکر بجا لانے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

اپنی رائے کا اظہار کریں