””میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں سبھی لوگ مجھے گندی نظروں سے دیکھتے ہیں““

مجھے گندی نظروں

کائنات نیوز! میں ایک سند یافتہ بد کردار عورت ہوں۔ میری شخصیت پر بدکرداری کی مہر لگ چکی ہے۔ اور اس کا ادراک مجھے سب سے پہلے اُس وقت ہوا جب مجھے پہلی بار اپنا طلاق نامہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے خود پر تھوڑی حیرت بھی ہوئی۔ ایسا کیسے ہوا ہے کے میں اس قدر پڑھی لکھی۔ اچھی نوکری پر فائز ہو کر بھی اب تک اپنا طلاق نامہ کا نوٹس نہیں پڑھ سکی تھی۔

میں نے اُس دن پر غور کیا۔ اُس ایک لمحے کو سوچا جس لمحے ڈاک کے ذریعے طلاق نامہ کا نوٹس میرے ہاتھوں میں آیا تھا۔ لفافے پر غور کرنے کے بجائے میں بڑے معمول سے لفافہ کھول بیٹھی تھی اور پھر۔ پھر پہلے صفحے کی پہلی سطر بدکار لفظ پڑھ کر ہی ایسی سکتے میں آ گئی تھی کہ آگے پڑھنے کی ہمت نہ کر سکی ۔ میں نے خاموشی سے اُسے تہہ کر کے لفافے میں واپس ڈال لیا تھا۔ ویسے بھی منادی تو وہ پہلے ہی کر چکا تھا۔ یہ تو بس سند تھی۔ جو ہمیشہ نتیجہ آ جانے کے کچھ دنوں بعد ہی ملتی ہے۔خیر کچھ دنوں بعد مجھے اس کا خیال آیا۔ اب کی بار میں نے لفافے کو بڑی احتیاط سے کھول کر نوٹس نکالا ۔ سفید رنگ کے فقط پچاس روپے کے حلف نامے نے میری شخصیت پر بدکرداری کی مہر لگا دی تھی۔ ہمت کر کے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ شروع میں معمول کی معلومات۔ میری اس سے فلان دن فلاں مقام پر شادی ہوئی۔ رخصتی ہوئی۔

مگر پڑھتے پڑھتے جب اصل تحریر تک آئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔میں نے اُس دن پر غور کیا۔ اُس ایک لمحے کو سوچا جس لمحے ڈاک کے ذریعے طلاق نامہ کا نوٹس میرے ہاتھوں میں آیا تھا۔ لفافے پر غور کرنے کے بجائے میں بڑے معمول سے لفافہ کھول بیٹھی تھی اور پھر۔ پھر پہلے صفحے کی پہلی سطر بدکار لفظ پڑھ کر ہی ایسی سکتے میں آ گئی تھی کہ آگے پڑھنے کی ہمت نہ کر سکی۔ میں نے خاموشی سے اُسے تہہ کر کے لفافے میں واپس ڈال لیا تھا۔ ویسے بھی منادی تو وہ پہلے ہی کر چکا تھا۔ یہ تو بس سند تھی۔ جو ہمیشہ نتیجہ آ جانے کے کچھ دنوں بعد ہی ملتی ہے۔خیر کچھ دنوں بعد مجھے اس کا خیال آیا۔ اب کی بار میں نے لفافے کو بڑی احتیاط سے کھول کر نوٹس نکالا۔ سفید رنگ کے فقط پچاس روپے کے حلف نامے نے میری شخصیت پر بدکرداری کی مہر لگا دی تھی۔ ہمت کر کے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ شروع میں معمول کی معلومات۔ میری اس سے فلان دن فلاں مقام پر شادی ہوئی۔

رخصتی ہوئی۔ مگر پڑھتے پڑھتے جب اصل تحریر تک آئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اُس نے لکھا تھا کے اُسے میرے کردار پر شک تھا اور اُس نے مجھے کئی بار غیر مردوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت کرتے پایا۔ کئی بار ٹوکنے پر بھی کیونکہ میں نے اپنے رویوں پر نظر ثانی نہیں کی۔ اوراب وہ عدالت سے طلاق چاہتا ہوں اور میں چونکہ ایک انتہائی بے راہرو عورت ہوں تو وہ اور میرے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ ختم شد۔ میں ایک بار پھر سکتے میں آ گئی۔ اُس نے کیسا کاری وار کیا ہے۔ طلاق دے کر مجھے خود پر ہی نہیں دنیا کے تمام مردوں کے لئے حرام کر دیا ہے۔میں نے جان پہچان کے ایک وکیل صاحب سے رجوع کیا۔ میں تحریر کو بدلنا چاہتی ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے۔بھلا یہ کیا سوال ہوا۔ وہ حیران رہ گئے۔ گلا کھنکھار کر انہوں نے مجھ سے طلاق نامہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ پڑھتے ہوئے اُن کے چہرے کے تاثرات سپاٹ تھے مگر جب پڑھ چکے تو مسکرا گئے۔

یہ کوئی بہت ہی اعلی قسم کا بے غیرت مرد لگتا ہے۔ اُن کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اور وکیل جس نے یہ طلاق نامہ حلف نامے پر تحریر کیا وہ میں بھی پوچھنے سے باز نہ آئی۔ ہاں اُس کو چاہیے تھا کے تحریر میں شائستگی کا دھیان رکھتا۔ مگر کوئی طریقہ بھی تو بتائیں۔ میں اس تحریر سے اتفاق نہیں کرتی۔ میں طلاق نامے کو نہیں بلکہ طلاق کی وجہ کو ماننے سے انکار کرنا چاہتی ہوں۔ کیا مجھے جوابی کیس کرنا چاہیے وکیل صاحب نے مجھ سے معذرت کر لی۔ تحریر بدلی نہیں جا سکتی پر جوابی کیس بنایا جاسکتا ہے۔ میں اپنا سا منہ لے کر رہ گی خیر کیسں ڈال دیا پھر وہی تاریخ پے تاریخ۔ شناختی کارڈ پر شناخت بدلوانے کی باری آئی۔ انجانے میں سیدھی نادرا کے دفتر پہنچ گئی۔ جی میں اپنے شناختی کارڈ پر شناخت بدلوانا چاہتی ہوں کیا طریقہ کار ہے وہ کیوں شیشے کے پیچھے سے سے پوچھا گیا۔ میں نے پلٹ کر اپنے پیچھے قطار میں لگی کئی عورتوں کو دیکھا۔

ساتھ ساتھ مردوں کی قطار پر بھی نظر چلی گئی۔ قطار میں لگے سارے ہی کوئی مصروفیت نہ ہونے کے باعث میرے جواب کے بڑے انہماک سے منتظر تھے۔ جی وہ اصل میں۔ مجھے۔ اصل میں۔ یوں ہے کہ۔ مجھے اپنے خاوند کا نام بدل کر والد کا نام شناختی کارڈ میں واپس ڈلوانا ہے۔محترمہ یہ کوئی موبائل کا ایزی لوڈ نہیں ہے کے جتنا جیسا دل ہوا کر وا لیا۔ آپ وجہ بتائیں بیزاری اور جھنجھلاہٹ نمایاں ہو گئی۔میں نے پھر پیچھے دیکھا۔ گہری سانس لی۔مجھے طلاق ہو گئی ہے اس لئے۔ طلاق نامہ دکھائیں ایک ہاتھ شیشے سے باہر آیا۔ میں نے تھوڑے تذبذب کے بعد طلاق نامہ پکڑا دیا۔ پہلی سطر ہی واضح اعلان کر رہی تھی کے یہ کیا ہے مگر اندر بیٹھا شخص بڑی دل جمعی سے حلف نامہ پڑھنے لگا۔ میں اُس کی نظروں کا تعاقب کرتی رہی۔ چند معمول کی سطریں اور پھر وہی دھماکا خیز مواد۔ جس تک آتے آتے اُس کی دلچسپی بڑھتی نظر آئی۔ اُس نے کن انکھیوں سے دو چار بار مجھے دیکھا۔

طنزیہ مسکرایا بھی۔ اور پھر حلف نامہ مجھے واپس پکڑاتا بولا۔ پہلے تو آپ کو اسے یونین کاونسل سے رجسٹر کروانا ہو گا۔ رجسٹرڈ طلاق نامے کے بعد ہی آپ اپنے سابقہ شوہر کا نام اپنے شناختی کارڈ سے خارج کروا سکتی ہیں۔ مجھے چلتا کر دیا گیا اور پورے راستے مجھے غصہ آتا رہا۔ یہی بات وہ پڑھے بغیر بھی تو بتا سکتا تھا جب یہ بات طے تھی کے سب سے پہلے مجھے یونین کاونسل سے رجسٹرڈ طلاق نامہ لانا ہے تو اُسے کیا حق پہنچتا تھا کے میرے اس قدر ذاتی کاغذ کو دل جمعی سے پڑھے کے جیسے میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ آخر وہ اس کاغذ میں کون سی کمی۔ کون سی غلطی نکالنا چاہتا تھا۔ جبکہ اس کا کام ہی رجسٹرڈ طلاق نامے کے بعد شروع ہونا تھا۔ اب پتہ نہیں میرے کردار کے بارے میں کیا کیا سوچتا ہو گا کیا معلوم کھانے کے وقفے میں اپنے کولیگز کو بتاتا پھرے۔ ہونہہ کرتا رہے جو کرنا ہے میں کون سا اس کے پاس روز روز آؤں گی!

دوسرے دن میں پوچھتی تلاشتی یونین کاونسل کے دفتر پہنچ گئی۔ کاونسلر صاحب کے دفتر میں مختلف کام سر انجام دینے والوں میں سے چند ایک سے معلومات لیں۔ کوئی عورت اگر کاونسل آفس میں کام کرتی بھی تھی تو ڈیوٹی پر موجود نہ تھی۔ مجھے بالآخر ایک مرد کو ہی سب کچھ پھر سے بتانا پڑا۔ اُس کے پاس تمام ضرورت کے کاغذات جمع کروا کر ایک ہفتے بعد مقررہ دن رجسٹرڈ کاغذ لینے پہنچ گئی۔ اب جو دفتر میں داخل ہوئی تو کئی ایک نظروں میں بے باکی دیکھی۔ دھڑلے سے اپنا جائزہ لیتے محسوس کیا۔ ظاہر ہے اب میں ایک معزز شہری کہاں رہی تھی۔ اب تو میں ایک ایسی عورت تھی جو کسی بھی غیر مرد کے ساتھ غیر اخلاقی حرکت میں ملوث ہونے کا باقاعدہ اجازت نامہ رکھتی ہے۔ میں نے خود کو دلاسہ دیا یہ مستقل بات نہیں۔ ایک بار شناختی کارڈ بدل جائے تو پھر میں زندگی بھر کے لئے آزاد ہو جاؤں گی۔

بہرحال رجسٹرڈ حلف نامہ لے کر واپس نادرا کے آفس گئی۔ اب کی بار شیشے کے پیچھے کوئی اور بیٹھا ہوا تھا۔ پھر سے تمام معلومات لی گئیں۔ پھر سے کاغذات پڑھے گئے اور تصویر۔ دستخط۔ انگوٹھے کے نشان لے کر مجھے فارغ کر دیا گیا۔ جان چھوٹی۔ میں تھوڑی مطمئن ہو گئی ۔کبھی بیٹھے بٹھائے سوچنے لگتی کہ کتنی خوشی اور کس قدر فخر سے آج تک میں اپنی تعلیمی اسناد کو دیکھتی رہی ہوں۔ نوکری پر ملنے والی اچھی اور اعلیٰ کارکردگی پر مختلف اسناد جمع کرتی رہی ہوں مگر یہ میری بدکرداری کا سرٹیفیکٹ کیسا میری جان کا روگ بن گیا۔ اور کیسے جلی حروف میں مجھے۔ میرے کردار کو نمایاں کر جاتا ہے۔ چھپائے نہیں چھپتا۔ بتائے نہیں بن پڑتا۔ یہ کس قدر کمزور کر دینے والی سند ہے۔ زچ کر دینے والی۔ اچانک سے بہت ہی کمتر بنا دینے والی سند۔ چلو جو ہوا سو ہوا اب تو خیر ہے۔ میں سوچ کر جیسے خود کو بہلاتی۔مگر خیر کے دن تھوڑی نکلے۔

مجھے ملک سے باہر جانا تھا۔ اور پاسپورٹ بدلوانے کا خیال اس سے پہلے نہیں آیا تھا۔ شناختی کاڑد کسی نام سے اور پاسپورٹ کسی نام سے۔ پہلے تو حد ممکن کوشش کی کے کسی طرح یہ باہر کی میٹنگ سے مجھے نجات مل جائے مگر جب ممکن ہوتا نظر نہ آیا تو میں تنگ ہو گئی۔ اب پاسپورٹ آفس کا چکر لگانا پڑا۔جی میں شناختی کارڈ کا نام اپنے پاسپورٹ۔ مطلب پاسپورٹ پر نام بدلوانا چاہتی ہوں۔ میں نے ٹوکن لیتے ہوئے پاسپورٹ آفس آنے کا مقصد بیان کیا۔ ا ور شناختی کارڈ آگے بڑھا دیا۔ صرف شناختی کارڈ نہیں۔ باقی کے کاغذات بھی جمع کروائیں۔مجھے ہدایات دی گئیں اور ایک بار پھر میرا دل بجھ گیا۔آخر کار میں نے دل کو ٹوکا۔ میں ایک سند یافتہ بدکردار عورت ہوں۔ بھلا مجھے عزت بے عزتی سے کیا سروکار

اپنی رائے کا اظہار کریں