نبیِ کریمﷺ کا ایک ناقابلِ یقین معجزہ جان کر آپ بھی سبحان اللہ کہ اُٹھیں گے

معجزہ

کائنات نیوز! حضرت ابوہریرةؓ نے ایک طویل واقعہ بیان کیا ہے ۔یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نمایاں معجزہ ہے ۔فرماتے ہیں ۔خدا کی قسم حالت یہ تھی کہ میں بھوک کی وجہ سے زمین پر گر پڑتا تھا اور پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا ۔ایک روز میں بھوک سے پریشان ہو کر لوگوں کی گزرگاہ میں بیٹھ گیا ۔حضرت ابوبکرؓ ادھر سے تشریف لائے تو میں نے ان سے ایک آیت کامطلب پوچھا ۔

اس سے میرا مقصد صرف یہ تھا کہ انھیں میری حالت کا اندازہ ہو جائے اور وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے جا کر کچھ کھلا پلا دیں،لیکن انہوں نے میری اصل ضرورت محسوس نہیں کی اور روانہ ہو گئے۔میں وہیں بیٹھا رہا۔جب حضرت عمرؓ کا وہاں سے گزر ہوا تو میں نے ان سے بھی اسی مقصد کے تحت آیت کا مطلب دریافت کیا۔انہیں بھی میری ضرورت کااحساس نہ ہو سکا اور وہ آگے بڑھ گئے۔(بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کا مفہوم بیان کر کے یہ حضرات خاموش ہو گئے)۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فوراً محسوس فرما لیاکہ میں بھوک سے پریشان ہوں ۔ فرمایا۔ ابوہریرةؓ میرے ساتھ چلو۔میں چل پڑا ،آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور اجازت لے کر میں بھی داخل ہوا ۔

آپ نے دیکھا دودھ کا ایک پیالہ رکھا ہوا ہے ۔دریافت فرمایایہ کہاں سے آیا ہے؟گھر والوں نے جواب دیا فلاں صاحب یا صاحبہ نے آپ کی خدمت میں ہدیہ بھیجا ہے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا ابوہریرةجاو،اصحاب صفہ کو بلا لاؤ۔یہ بات اس وقت مجھے اچھی نہیں لگی۔ میں نے سوچا کہ اس تھوڑے سے دودھ کا اصحاب صفہ کے درمیان کیا ہو گا؟اس وقت تو مجھے اس کی زیادہ ضرورت ہے۔بہرحال آپ کے حکم کی تعمیل میں اصحاب صفہ کو بلا لایا۔جب سب لوگ آ گئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ دودھ ان کو پیش کرو۔میں ان میں سے ایک ایک کو یہ پیالہ دیتا جاتا تھا اور وہ پوری طرح سیراب ہو کر پیالہ میرے حوالے کر دیتا تھا۔جب سب لوگ پی چکے تو پیالہ میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔پیالہ ہاتھ میں لے کر آپ مسکرائے اور فرمایا۔

اب ہم اور تم دو باقی رہ گئے ہیں۔بیٹھو اور پیو۔میں نے بھی اسی میں سے پیا ۔آپ نے فرمایا اور پیو،میں نے اور پیا ۔ آپ یہی فرماتے رہے اور پیو۔میں نے عرض کیا ۔اب تو بالکل گنجائش نہیں ہے۔آپ نے پیالہ ہاتھ میں لیا اور جو دودھ بچا تھا وہ نوش فرما لیا(۳)(۳)(بخاری:کتاب الرقاق ،باب کیف کان عیش النبی الخ۔ترمذی ،ابواب صفة القیامة۲/۱۷)۔

اپنی رائے کا اظہار کریں