رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

نبی کریمﷺ نے فرمایا

کائنات نیوز! والدین سے بدسلوکی کرنے والا نظرِ رحمت اور جنت سے محروم حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اللہ تعالی روزِ قیامت تین قسم کے لوگوں کیطرف دیکھنا تک گوارا نہیں کرے گا،والدین کا نافرمان(ان سے بدسلوکی کرنے والا)ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا اور احسان جتانے والا۔اور تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہونگے؛

والدین کا نافرمان اور اُنہیں اذیت پہنچانے والا،دیوث(جس گھر میں بدکاری ہو رہی ہو اور وہ اُسے خاموشی سے دیکھتا رہتا ہو۔) اور وہ عورت جو مردوں جیسی وضع قطع بناتی اور ان سے مشابہت اختیار کرتی ہو۔(صحیح الترغیب والترھیب 2511،و نسائی والحاکم) والدین کے نافرمان کیلئے سخت وعید حضرت عمرو بن مرہ الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسولﷺ!میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور میں پانچ نمازیں پڑھوں گا،اپنے مال سے زکوتہ ادا کرونگا اور رمضان کے روزے رکھوں گا تو آپﷺ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر فرمایا جس شخص کی موت اسی پر آئے گی وہ روزِ قیامت نبیوں(علیھم السلام)صدیقوں اور شھیدوں کیساتھ ہو گا بشرطیکہ اس نے والدین کے نافرمانی اور ان سے بدسلوکی نہ کی ہو۔

(ابن حبان جلد 8. 3438 ,صحیح الترغیب والترھیب 2515) والدین کے نافرمان کیلئے رسول اللہﷺ کی بددعا حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوۂ افروز ہوئے اور آپﷺ نے تین مرتبہ (آمین )فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل(امین علیہ السلام) آئے اور انہوں نے آ کر کہا اے محمد ﷺ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان )میں سے کسی ایک کو پائے ( پھر ان سے نیکی نہ کرے ) پھر وہ مر جائے اور جھنم میں چلا جائے تو اللہ تعالی اُسے (اپنی رحمت سے ) دور کر دے۔آپ ﷺکہیں آمین تو میں نے کہا آمین، پھر انہوں نے کہا اے محمدﷺ ! جس شخص نے ماہ رمضان پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اسکی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جھنم میں داخل ہو گیا تو اللہ اُسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔آپ ﷺ کہیں آمین، میں نے کہا آمین ، انہوں نے کہا کہ جس شخص کے پاس آپ ﷺ کا ذکر کیا گیا

اور اُس نے آپ ﷺ پر درود نہیں پڑھا پھر اُسکی موت آگئی اور وہ جھنم میں چلا گیا تو اللہ تعالی اُسے بھی (اپنی رحمت سے ) دور کر دے۔آپﷺ کہیں آمین تو میں نے کہا آمین ۔ (ابن حبان ج 3,صفحہ 188, 907 -صحیح الترغیب والترھیب 2491) والدین کی خدمت کرنے والی کی دعا قبول ہوتی ہے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہےکہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا!تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی،جسکی وجہ سے انہیں پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی۔جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آ گرا جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔اب وہ آپس میں کہنے لگے،دیکھو! وہ نیک(صالح) اعمال جو تم نے خالصتاً اللہ تعالی کی رضا کیلئے کئے ہوں،آج انہی اعمال کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کر کے دعا کرو،شاید وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دے۔۔۔۔!!! چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا۔۔۔

اے اللہ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں بکریاں چراتا اور انکے لئے دودھ لیکر آتا۔اور شام کو جب میں واپس گھر لوٹتا اور سب سے پہلے اپنے (بوڑھے) والدین کو دودھ پیش کرتا،پھر اپنے بچوں کو دیتا۔ ایک دن میں چراہگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر تاخیر سے پہنچا۔تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں، میں نے دودھ لیا تو ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر انکے جاگنے کا انتظار کرنے لگا اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ خود انہیں جگاؤں،اور میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے،لہذا میں اسی طرح اُن کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا،وہ سوئے رہے اور بچے بلبلاتے رہے حتّٰی کہ طرح فجر ہو گئی۔(اے اللہ!) تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا۔لہذا تو اس پتھر کو اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں۔۔۔۔۔

چنانچہ اللہ تعالی نے اسکی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے۔۔۔۔ باقی دو آدمیوں میں ایک نے اپنے مزدور کیلئے حُسن سلوک کی نیکی پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کی تو وہ پتھر تھوڑا سا اور کھسک گیا لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے۔اب تیسرے آدمی نے دعا کی،تو اس نے اپنی ایک چچا زاد سے محبت کا ذکر کیا جس میں نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ وہ اس سے بدکاری کرنے کے عین قریب پہنچ گیا۔لڑکی نے اسے اللہ تعالی سے ڈرنے کا کہا تو اس نے بدکاری کا ارادہ ترک کر دیا۔چنانچہ اللہ تعالی نے اس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا۔(بخاری شریف 5974، مسلم شریف 3743 ) لہذا ! ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ان سے ادب واحترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔۔

اپنی رائے کا اظہار کریں